#28safar#shia kids key ly #mukaml#shahadt imam hassan as2020#بچوں کےلئے مکمل داستان شھادت امام حسن ع
حسن بن علی بن ابی طالب امام علیؑ اور حضرت فاطمہؑکے سب سے بڑے فرزند اور پیغمبر اکرمؐ کے بڑے نواسے ہیں۔[1] آپ کا نسب بنیہاشم اور قریش تک منتہی ہوتا ہے۔[2]
نام، کنیت اور القاب
“حَسَن” عربی زبان میں نیک اور اچھائی کے معنی میں آتا ہے اور یہ نام پیغمبر اکرمؐ نے آپ کیلئے انتخاب کیا تھا۔[3] بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے یہ نام آپ کیلئے خدا کے حکم سے رکھا تھا۔[4]
“حسن” اور “حسین” عبرانی زبان کے لفظ “شَبَّر” اور “شَبیر”(یا شَبّیر)،[5] کے ہم معنی ہیں جو حضرت ہارون کے بیٹوں کے نام ہیں۔[6] اسلام حتی عربی میں اس سے پہلے ان الفاظ کے ذریعے کسی کا نام نہیں رکھا گیا تھا۔[7]
آپؑ کی کنیت “ابومحمد” اور “ابوالقاسم” ہیں۔[8] آپ کے القاب میں مجتبی(برگزیدہ)، سَیّد (سردار) اور زَکیّ (پاکیزہ) مشہور ہیں۔[9] آپ کے بعض القاب امام حسینؑ کے ساتھ مشترک ہیں جن میں “سیّد شباب اہل الجنۃ”، “ریحانۃ نبیّ اللہ”[10] اور “سبط” ہیں۔[11] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث میں یوں آیا ہے: “حسن” اسباط میں سے ایک ہے”۔[12] آیات و روایات کی رو سے “سبط” اس امام اور نَقیب کو کہا جاتا ہے جو انبیاء کی نسل اور خدا کی طرف سے منتخب ہو۔[13]
امامت
حسنؑ بن علیؑ شیعوں کے دوسرے امام ہیں۔ آپؑ 21 رمضان سنہ 40ھ کو اپنے والد ماجد امام علیؑ کی شہادت کے بعد امامت کے عہدے پر فائز ہوئے اور دس سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔[14] شیخ کلینی(متوفی 329ھ) نے اپنی کتاب کافی میں امام حسنؑ کو منصب امامت پر نصب کئے جانے سے مربوط احادیث کو جمع کیا ہے۔[15] ان روایات میں سے ایک کے مطابق امام علیؑ نے اپنی شہادت سے پہلے اپنی اولاد اور شیعہ بزرگان کے سامنے اس کتاب اور تلوار کو اپنے فرزند ارجمند امام حسنؑ کو عطا فرمایا جو امامت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔ اور اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ پیغمبر اکرمؐ نے امام علیؑ کو اپنے بعد آپ کے فرزند “حسن بن علیؑ” کو اپنا جانیشن اور وصی مقرر کرنے کا حکم دیا تھا۔[16] ایک اور حدیث کے مطابق امام علیؑ نے کوفہ تشریف لے جانے سے پہلے امامت کی مذکورہ نشانیوں کو ام سلمہ کے حوالے فرمایا جسے امام حسنؑ نے کوفہ سے واپسی پر ام سلمہ سے اپنی تحویل میں لیا تھا۔[17] شیخ مفید (متوفی 413ھ) نے اپنی کتاب ارشاد میں یوں تحریر کیا ہے کہ حسن بن علیؑ ان کی خاندان میں اپنے والد ماجد امام علیؑ کے جانشین اور وصی ہیں۔[18]
اسی طرح آپؑ کی امامت پر رسول خدا سے نقل ہونے والی بعض احادیث بھی صراحتا دلالت کرتی ہیں: اِبنای ہذانِ امامان قاما او قَعَدا(ترجمہ: این یہ میرے دونوں بیٹے(حسنؑ اور حسینؑ) تمہارے امام ہیں چاہے یہ قیام کریں یا صلح۔)»[19] اسی طرح حدیث ائمہ اثنا عشر[20] سے بھی آپ کی امامت پر استدلال کیا جاتا ہے۔[21]
امام حسنؑ اپنی امامت کے ابتدائی مہینوں میں جس وقت آپ کوفہ میں تشریف رکھتے تھے، منصب خلافت پر بھی فائز تھے لیکن بعد میں معاویہ کے ساتھ کے بعد خلافت سے دستبردار ہوئے خلافت سے کنارہ کشی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔
انگوٹھی کا نقش
امام حسن مجتبیؑ کی انگشتری کے دو نقش منقول ہیں: الْعِزَّۃُ لِلَّہِ؛[22] اور حَسْبِی اللَّہُ۔[23]
بچپن اور جوانی کا زمانہ
مشہور قول کی بنا پر آپ کی تاریخ ولادت 15 رمضان سنہ 3 ہجری ہے۔[24] لیکن بعض منابع میں آپ کی تاریخ ولادت سنہ 2 ہجری بھی لکھا گیا ہے۔[25] آپ مدینہ میں پیدا ہوئے[26]، پیغمبر اکرمؐ نے آپ کی کان میں اذان دی [27] اور ولادت کے ساتویں روز ایک گوسفند کے ذبح کر کے آپ کا عقیقہ کیا گیا۔[28]
بعض منابع کے مطابق امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی توسط سے آپ کا نام “حسن” رکھنے سے پہلے اپنے بیٹے کا نام حمزہ[29] یا حرب[30] رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن جب رسول خدا نے امام علی سے سوال کیا کہ اپنے بیٹے کا نام کیا رکھا ہے تو آپ نے فرمایا میں اس کام میں خدا اور اس کے رسول پر پہلی نہیں کرونگا۔[31]
بچپن اور نوجوانی
آپ کی بچپن اور نوجوانی کی زندگی کے بارے میں کوئی خاص معلومات میسر نہیں۔[32] آپ نے صرف آٹھ سال سے بھی کم عرصہ اپنے نانا رسول خداؐ کی زندگی کو درک کیا[نوٹ 1]اس بنا پر آپ کا نام پیغمبر اکرمؑ کے اصحاب کے آخری طبقے میں ذکر کیا جاتا ہے۔[33]
آپؑ اور آپ کے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی بے پناہ محبت کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت منابع میں بہت سی واقعات ذکر کی گئی ہیں۔[34]
آپ کی زندگی کے اس دور کا اہم ترین واقعہ اپنے والدین، بھائی اور نانا رسول خداؐ کے ہمراہ نجران کے عیسائیوں ساتھ ہونے والے مباہلے میں شرکت ہے اور آیہ مباہلہ میں موجود لفظ “اَبناءُنا” کا مصداق بنا۔[35] سید جعفر مرتضی کے بقول آپؑ بیعت رضوان میں بھی موجود تھے اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ آپ نے بھی حضورؐ کی بیعت کیں۔[36] قرآن کی بعض آیات آپ اور اصحاب کساء کے دوسرے ارکان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔[37] کہا جاتا ہے کہ آپ سات سال کی عمر میں اپنے نانا رسول خداؐ کے مجالس میں شرکت فرماتے اور جو کچھ حضورؐ پر وحی ہوتی اس بارے میں اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراؑ کو مطلع کرتے تھے۔[38]
سلیم بن قیس (متوفی پہلی صدی کے اواخر) نے نقل کیا ہے کہ رسول خداؐ کی رحلت کے بعد ابوبکر نے جب خلافت پر قبضہ کیا تو حسن بن علی اپنے والد ماجد امام علی، والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ اور بہائی امام حسینؑ کے ساتھ رات کو انصار کے گھروں میں جاتے تھے اور ان کو حضرت علیؑ کی مدد کرنے کی دعوت دیتے تھے۔[39] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ آپ منبر رسول پر ابوبکر کے بیٹھنے کا مخالف تھا اور اس حوالے سے اپنی نارضایتی کا اظہار کرتے تھے۔م
#28safar
#molanasyedsaqlain
#haidernajafi